تحریر: محمد عمران نیپالی متعلم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
حوزه نیوز ایجنسی | مدارس اسلامیہ کو ہمیشہ سے وہی حیثیت حاصل رہی ہے جو سارے نظامِ فلکی میں کواکب وسیّارات کے مقابل سورج کو حاصل ہے، ان تمام کواکب وسيارات کی رونق، چمک، دمک اور قوت کا اصل منبع و سرچشمہ یہی سورج ہے، آپ آزادیِ ہند کے بعد کی اصلاحی یا رفاہی کسی بھی تحریک کے بنیادی ڈھانچہ اور اس کے ابتدائی مراحل کا جائزہ لیجئے تو اس کا آخری سرا کہیں نہ کہیں مدارس سے مرقوم و مربوط نظر آئے گا، اس کی زمام اور باگ ڈور انھیں مدارس کے فارغ التحصیل علماء کے ہاتھوں میں نظر آئے گی یا اس تحریک کے مختلف ادوار میں اس کی ترقی وترویج اور تقویت کے یہی باعث نظر آئیں گے، اس میں کوئی شک اور شبہ نہیں کہ دینی مدارس ملت اسلامیہ کا دھڑکتا دل ہیں۔
وہ دل جس کی دھڑکن زندگی کی علامت اور پہچان ہے اور جس کی خاموشی موت کی خاموشی بن جاتی ہے، دل اگر پورے جسم میں خون پہنچاتا ہے اور اسے سرگرم اور زندہ رکھتا ہے تو یہ دینی مدارس بھی امت مسلمہ کو دین کا خادم ، مبلغ اور ترجمان فراہم کرتے ہیں، جن کی وجہ سے امت مسلمہ کا وجود متحرک زندہ اور فعال رہتا ہے، تمام دینی جماعتوں تحریکوں،اداروں تنظیموں اور سوسائٹیوں کو یہیں سے قوت و طاقت کمک اور رسد پہنچتی ہے۔
اگر ان اداروں تحریکوں جماعتوں اور تنظیموں کو یہاں سے یہ پاور، طاقت و قوت اور انرجی نہ پہنچے تو ان کی فعالیت اور حرکت و حرارت میں کمی آجائے اور ایک طرح سے بے جان و بے حس ہو جائے، داعی ہوں یا مبلغ دین کا خادم ہوں یا ترجمان امام ہوں یا خطیب مصنف ہوں یا مولف مرتب ہوں یا صحافی و محرر خطیب ہوں یا واعظ استاد ہوں یا مربی مفتی ہوں یا قاضی امیر ہو یا حاکم یا کوئی بھی خدمت گزار دین کے لائن سے ہوں یا سماجی ورکرز کے اعتبار سے سب اسی کے خوشہ چیں اسی گل کے پھول و کلی اور اسی چمن کے گلہائے رنگا رنگ ہوتے ہیں، اور آج بھی اگر کوئی قرآن وحدیث پر گہری بصیرت، علومِ اسلامیہ پر کامل دسترس اور ان علوم کے تئیں وسیع نظری اور دوربیں نگاہی چاہتا ہے تو وہ انھیں مدارس اسلامیہ کی تعلیم وتربیت کے زیرِاثر ہی حاصل کر پائے گا، عصر حاضر میں مدارس اسلامیہ خصوصاً متوسط اور غریب خاندانوں کی تعلیم و تربیت کا واحد ذریعہ ہیں، یہاں مدارس میں کچھ لیا نہیں جاتا بلکہ سب کچھ دیا جاتا ہے، تعلیم بھی تربیت بھی کتابیں بھی خوراک بھی رہائش بھی سب کچھ مفت، یہاں کا بجٹ آمدنی کے بعد نہیں بنتا بلکہ اللّٰہ و رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فضل و احسان اور اہل خیر کے ذریعہ دی جانے والی رقوم کی موہوم امید اور توقعات پر بنا کرتا ہے،
یہاں کے اساتذہ معمولی تنخواہوں پر کام کرتے ہیں اور صرف یہی وہ لوگ ہیں جو کم از کم اپنی صلاحیتیں فروخت نہیں کرتے دنیاوی اجرت کا تو کوئی تصور ہی نہیں رکھتے بلکہ اجر خداوندی کی امید پر تسلسل اور دل جمعی کے ساتھ نہایت ہی لگن سے کام کرتے رہتے ہیں!!
یہ مدارسِ دینیہ مسلم سماج میں اسلامی تعلیم و تربیت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ کے لئے’’ لائف لائن‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں مسلم سماج کے جسم و جان میں اسلامی حمیت و غیرت اور دینی تعلیم و تربیت کا جو خون گردش کرتا ہے وہ سب انہیں مدارس اسلامیہ کی بدولت ہیں بنیادی دینی تعلیم جس کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے اس کی تکمیل ان اداروں کے ذریعہ ہی ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اکابرین اور علمائے صالحین نے اس کی ضرورت و اہمیت کو بیان کرکے لوگوں کی توجہ اس کی طرف مبذول کرائی ہے۔
اس میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں کہ اس وقت مدارسِ اسلامیہ کا وجود مسلمانوں کے لئے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے دنیا میں اگر اسلام کے بقاء کی کوئی صورت ہے تو یہ مدارس اسلامیہ ہیں، یہ مدارس جہاں بھی ہوں جیسے بھی ہوں ان کا سنبھالنا اور چلانا مسلمانوں کا سب سے بڑا فریضہ ہے، اگر ان مدرسوں کا کوئی فائدہ نہیں تو یہی کیا کم ہے کہ یہ غریب طبقوں میں مفت تعلیم کا ذریعہ ہیں اور ان سے فائدہ اٹھا کر ہمارا غریب طبقہ انھیں مدارس کی آغوش میں اپنے شعور و آگہی کی آنکھیں کھولتا ہے، مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کہتے ہیں کہ مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں۔
مدرسہ عالم اسلام کا وہ پاورہاؤس ہے جہاں سے اسلامی آبادی بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے، مدرسہ وہ کارخانہ ہے جہاں قلب و نگاہ اور ذہن و دماغ ڈھلتے ہیں، مدرسہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری کایٔنات کا احتساب ہوتا ہے اور پوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے۔
یقیناً دین اسلام کی بقاء انہیں مدارس اسلامیہ کے استحکام سے ہے۔۔!!
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔